بلوچستان: سیاست میں خواتین کی شرکت اور فیصلہ سازی کا چیلنج

زیادہ سے زیادہ خواتین سیاسی قیادت میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں لیکن صنفی فرق کے خاتمہ کی اب بھی ضرورت ہے۔
گوادر کی ایک مقامی خاتون ، اسما بلوچ سیاسی سرگرمیوں میں کافی عرصے سے حصّہ لیتی رہی ہیں۔ آخر، بلوچستان نیشنل پارٹی کی ممبر کی حیثیت سے انہوں نے گوادر کی مقامی گورنمنٹ میں بطورِ کونسلر شمولیت اختیار کر لی۔ اس دوران بقول اُن کے، انہیں محسوس ہوا کہ اُن کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔
لیکن بلوچستان کی باقی ابھرتی خواتین سیاست دانوں کی طرح، وہ اس تلخ حقیقت سے آشنا تھیں کہ شاید کُچھ اندازوں کے مطابق بلوچستان خواتین کی سیاسی قیادت کو تسلیم کر رہا ہے مگر ان قیادتوں کی رہنمائی اب تک بلوچستان کی خواتین کے لیے ایک سخت امتحان سے کم نہیں۔
اسما اب گوادر کی مقامی گورنمنٹ کے 54 کونسلروں میں سے ایک ہیں۔’’ کم تعلیم یافتہ ہو کر ڈسٹرکٹ گورنمٹ کی نمائندگی کو لے کر میرے ذہن میں بہت سے سوالات اُٹھ رہے تھے۔ لیکن اگر آپ دیکھیں کہ کوئی اور آگے آ کر ان ذمہ داریوں کو نبھانا ہی نہ چاہے تو آ پ کو آگے بڑھنا ہی پڑتا ہے،‘‘ اسما نے حال حوال کو بتایا۔
گوادر کی مقامی گورننمٹ کی33% نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ یعنی 54 میں سے تقریباََ 10 نشستیں۔ مگر ان دس نشستوں کے لیے بھی خواتین کو آمادہ کرنا نہ صرف گوادر بلکہ پورے بلوچستان کے لیے ایک پیچیدہ مرحلہ ہے۔ حتیٰ کہ گوادر بلوچستان کے اس ڈویژن کا حصّہ ہے جسے باقی ڈویژنوں کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال تصور کیا جا سکتاہے لیکن بات اگر سیاسی سرگرمیوں کی ہو تو بلوچستان کی خواتین کو اب بھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
اب تک بلوچستان کی چند خواتین نے بہت سے مراحل سے گُزر کر خود کو سیاست کے مختلف عہدوں میں منوانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن آج بھی سیاست میں خواتین کی کامیابی ان کی تعلیمی قابلیت، معاشی خودمختاری، خاندان کی طرف سے حمایت اور خاص طور پر بلوچستان کے معاملہ میں خاندانی پس منظر پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سب ہی چیزیں آ ج بھی ایک ایسے معاشرے کے لیے چیلنج ہیں، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہو اور جہاں خواتین آج بھی ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں جہاں وہ گھر کی چار دیواری میں محدود ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوں۔
’’خواتین بطورِ سیاسی رہنما اب بھی اس معاشرے میں قابلِ قبول نہیں، وہ بہت سی سیاسی پارٹیوں کی ارکان ضرور ہیں لیکن ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ انہیں کسی خاص عہدہ پر فائض کیا گیا ہو یا اُنہیں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا حصّہ بنایا گیا ہو۔ ایک طرف بہت سے مرد حضرات خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے تو ضرور نظر آتے ہیں لیکن خواتین کی قیادت کو اصل معنوں میں قبول کرنا اب بھی بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘ شازیہ لانگو نے کہا، جو کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی نیشنل پارٹی کی کارکن ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کارکنان کو انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے پارٹی کی طرف سے بہت کم حمایت ملتی ہے۔ یہ بات پہلے سے ذہن میں رکھا جاتا ہے کہ ان کے لیے کوئی ووٹ نہیں ڈالنے والا اور وہ ویسے بھی انتخابات میں ہار ہی جائیں گی۔ شاید اسی لیے انہیں صرف خواتین ونگ کا حصّہ بنایا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ خاتون سیکریٹری کا عہدہ دیا جاتا ہے اور ان سے زیادہ تر اسی بات کی ہی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران پارٹی کے مرد امیدواروں کے لیے مہم چلائیں اور دوسری خواتین کو اپنی پارٹی کے لیے ووٹ ڈالنے پر راضی کریں۔
ایک طرف صوبائی اور وفاقی سیاست کے لیے خواتین کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا اور معاشی طور پر خودمختار ہونا لازمی ہے تو دوسری طرف مقامی گورننمٹ کے لیے یہ شرائط لازمی نہیں۔گوادر کی مقامی کونسلر اسما کے مطابق، کم تعلیم یافتہ یا ایسی خواتین جن کا تعلیمی سرگرمیوں میں کوئی خاص کردار بھی نہ رہا ہو وہ بھی مقامی گورنمنٹ کا حصّہ بن سکتی ہیں اور اکثر جو گنی چنی خواتین مقامی سیاست میں حصّہ لیتی نظر آ تی ہیں، وہ بھی مرد ارکان کی مرضی اور حمایت کے بعد اسی لیے مقامی گونمنٹ کا وہ حصّہ تو ہوتی ہیں لیکن ان کی باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
بلوچستان میں آج بھی معاشرتی قوانین کی سختی سے پابند ی اور قبائیلی نظام کو خاصی حد تک اہمیت حاصل ہے، جہاں خاندانی پس منظر پر محدود طبقاتی نظام آج بھی رائج ہے۔ اس طرح اعلیٰ طبقہ کی خواتین کو مقامی گورنمنٹ کا حصّہ بنتے شاید ہی کسی نے بلوچستان میں دیکھا ہو۔
نیشنل پارٹی گوادر کے کارکن اور سابقہ لیڈی کونسلر طاہرہ خورشید کا کہنا ہے کہ ’’اگر وہ سیاست میں دلچسپی رکھتی بھی ہوں تب بھی اُن کو خاندان کی طرف سے اجازت نہیں ملتی کیوں کہ مقامی سیاست کو اکثر خواتین کے لیے ٹھیک نہیں سمجھا جاتا پھر چاہے اس سوچ سے معاشرہ اور خواتین کا زوال ہوتا رہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ 2004 سے لے کر اب تک سیاست میں حصّہ لینا ان کے لیے ایک اچھا تجربہ رہا ہے۔ بلوچستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں مکران میں خواتین کُچھ حد تک سیاست میں سرگرم رہ سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جا سکتیں۔ جس کا تعلق زمینی حقائق سے ہے کہ مکران میں بھی آ ج تک خواتین کو سیاسی قیادت نصیب نہیں‌ہوئی۔
زیادہ تر ایشیائی ممالک اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں خواتین سیاست دان اکثر مرد سیاست دانوں کی بیٹی، بیوی یا بہن وغیرہ ہوتی ہیں جنہیں مرد سیاست دان خود موقع دیتے ہیں لیکن بات اگر بلوچستان کے مرد سیاست دانوں کی ہو اور خاص طور پر بلوچ سیاست دانوں کی، تو اُن کے خاندانوں کی خواتین سیاست میں دور دور تک نظر نہیں آ تیں۔
شازیہ لانگو نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا،’’بلوچستان کی صوبائی سیاست میں اگر خواتین نظر آ تی ہیں تو وہ اُن کی خود کی دلچسپی ہوتی ہیں۔ انہیں خاندانی اور معاشرتی حمایت کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور جب وہ سیاسی پارٹیوں کی کارکن ہوتی ہیں تو انہیں صرف اور صرف صوبائی حکومت کی مخصوس نشستوں کے لیے ہی حمایت ملتی ہے۔ اُن کی اپنی آزادانہ سیاسی اقدار یا تجربات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ انہیں ہر لحاظ سے پارٹی کی رائے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘
جب خواتین ارکانِ اسمبلی آٹے میں نمک کے برابر ہوں تو صوبے کی باقی خواتین کے لیے قانون سازی بھی اُسی حساب سے ہوگی۔ پینتالیس سال اور دس اسمبلیوں کے دوران، جب بلوچستان کی گنی چنی خواتین تعلیمی اور شعوری لحاظ سے آگے بڑھتی گئیں، اُس حساب سے براہِ راست انتخاب ہو کر صوبائی اسمبلی کی خواتین ارکان کی تعداد بھی بڑھنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
شاید اس دوران خواتین امیدواران کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہو لیکن بلوچستان کے لیے خواتین کا انتخاب میں براہِ راست سامنے آنا آج بھی کسی حد تک انوکھی بات ہوگی۔ اس کا اندازہ ہم بلوچستان اسمبلی سے ہی کر سکتے ہیں کہ جہاں کل نشستوں کی تعداد 65 ہے، جن میں سے 11خواتین کے لیے جب کہ تین اقلیت کے لیے مخصوص ہیں۔ بلوچستان کی دسویں اسمبلی میں براہِ راست انتخابات کے ذریعے صرف ایک ہی خاتون اپنی جگہ بنا پائی ہے۔
گوادر کے ایک سماجی کارکن برکت اللہ بلوچ نے حال حوال کو بتایا، ’’سیاست میں خواتین کی شمولیت کے  بغیر خواتین کے حقوق یوں ہی صلب ہوتے رہیں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ خواتین نے خود اپنے حقوق کے لیے ایک ایسے طبقہ (مرد) کو علم بردار بنا دیا ہے جو خود سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کا ستحصال کرتا چلا آ رہا ہے۔‘‘
پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی شر حِ خواندگی صرف 20% ہے۔ اس کے علاوہ 40% خواتین کم عمری کی شادی کا شکار ہوتی ہیں۔ نیز زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح بھی باقی صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے مطابق، پاکستان میں خواتین پر ہونے والے ہر دس تیزابی حملوں میں سے ایک بلوچستان میں ہوتا ہے۔
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر نے حال حوال کو بتایا، ’’جب تک سیاست میں مرد اور خواتین کی تعداد یکساں نہیں ہوگی، تب تک سماجی نظام بُری طرح سے متاثر ہوتا رہے گا۔ مردوں کی اجارہ داری اور قبائلی نظام نے نہ صرف معاشرے کے باقی اداروں کو مفلوج کر رکھا ہے بلکہ سیاسی اداروں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہماری اسمبلی میں خواتین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے، ان کے حق میں کم ہی قانون سازی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق سے محروم ہوتی چلی آ رہی ہیں البتہ حال ہی میں پیش کیا گیا "کام کی جگہ پر ہراساں کے بارے میں بِل” خواتین کے حق میں بہتری کی نشان دہی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اب بھی بہت سے قوانین اور معاشرتی آگاہی کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘
بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہر مند سے تعلق رکھنی والی بلوچستان کی پہلی وفاقی وزیرِ تعلیم (2002-2007)، زبیدہ جلال کا کہنا ہے کہ بہتری کی گُنجائش ابھی بھی باقی ہے۔ پچھلے کُچھ سالوں میں بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے حق میں چند بِل پاس ہوئے ہیں۔ سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اوزیادہ تعداد سے ہم خواتین کے حقوق اور معیارِ زندگی میں بہتری کی اُمید کر سکتے ہیں۔
اب ضرورت یہ ہے کہ خواتین کے لیے ایسے مواقع پیدا کیے جائیں جن سے وہ تعلیم و شعورسے آ راستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی جنگ خود لڑ سکیں اور معاشرے میں رائج عدم مساوات کے خاتمے میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکیں۔
http://haalhawal.com/maryam-suleman/women-in-balochistan-politics/

Comments